Tabassum

Add To collaction

خراجِ محبّت ❤️

"پاکیزہ۔۔۔پاکیزہ بیٹے" خلیل الرحمٰن صاحب ہاتھوں میں سبزی کا شاپر لیے گھر میں داخل ہوتے ہی پاکیزہ کو آوازیں دینے لگے۔ پاکیزہ خلیل الرحمٰن صاحب اور نازیہ بیگم کی اکلوتی بیٹی تھی۔ پاکیزہ نہایت ملنسار اور بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے محبّت کرنے والی وُہ سادہ سی لڑکی تھی۔ 


"ابّو روح افزا پی لیں" گلابی سلوار سوٹ پہنے دوپٹے کو سلیقے سے سر پر اوڑھے پاکیزہ اُن کے ہاتھ سے شاپر لیتے ہوئے اُنہے جوس دینے لگی۔

"آپ نے نماز پڑھ لی، بیٹے؟" جوس کا گلاس واپس کرتے ہوۓ خلیل الرحمٰن صاحب نے پوچھا۔

"نہیں،ابّو بس پڑھنے ہی لگی تھی" پاکیزہ نے خاصا شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔ یہ خلیل الرحمٰن صاحب کی تربیت کا ہی اثر تھا کہ اُس کی کوئی نماز قضاء نہیں ہوتی تھی۔

"کوئی بات نہیں بیٹے، آپ نماز پڑھ لو پھر ہم ساتھ میں کھانا کھاتے ہے" وُہ سر خم کرتے ہوئی نماز پڑھنے چلی گئی۔

"اسلام وعلیکم، چچا جان" خلیل الرحمٰن صاحب ابھی صوفے پر ہی بیٹھے تھے کہ وُہ آگیا۔

"وعلیکم اسلام، برخوردار آؤ، بہت دنوں بعد چکّر لگایا ہے چچا کے گھر کا" خلیل الرحمٰن صاحب نے خفگی سے کہا۔

"چچا جان ایسی بھی بات نہیں ہے آتا تو ہوں" اُس نے خلیل الرحمٰن صاحب کی خفگی مٹاتے ہوئے کہا۔

"مَیں چچی جان سے مِل کر آتا ہوں" خلیل الرحمٰن صاحب نے سر خم کیا تو وُہ کچن میں چلا گیا۔ 

چچی سے مِلنا تو ایک بہانہ تھا۔ وُہ تو اُس جانِ دُشمن سے مِلنے آیا تھا، اُس کی ایک جھلک دیکھنے آیا تھا، جِس نےخود کو اُس نے حواسوں پر کر لیا تھا۔ وُہ کیچن میں پہلے چچی جان سے مِل کر اُس کے کمرے کی طرف گیا۔ نوب گھوما کر اُس نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی جو کھولتا چلاگیا۔ وُہ جانِ دُشمن اُسے جاۓ نماز پر سجدے میں نظر آئی، آج اُسے وُہ تیسری مرتبہ سجدے میں دیکھ رہا تھا۔ اُس کی دِل کی دھڑکن ویسے ہی بےقابو ہونے لگی جیسے پہلی مرتبہ اُسے سجدے میں دیکھ کر ہوئی تھی، اُسے سجدے میں ہی دیکھ کر وُہ اپنا دِل اُس پاکیزہ لڑکی پر ہار بیٹھا تھا۔ آج وُہ جِس مقصد کے تحت یہاں آیا تھا اُسے ڈر تھا کہ خاندانی رشتے بگڑ نہ جائے لیکِن وُہ اپنے اِس دِل کا کیا کرتا جو اُسے بار بار اُکساتا تھا۔
وُہ پچھلے ایک مہینے سے اُس کے حواسوں پر چھائی ہوئی تھی، مُشکِل سے اُس نے ایک مہینے میں ہمّت جمع کی اُسے اظہارِ محبّت کرنے میں، بنا انجام کی پرواہ کیے بغیر وُہ اُس کے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔

"ارے!!! نیاز تُم یہاں" پاکیزہ جائے نماز تہہ کر رہی تو وُہ اندر آیا۔

"مُجھے آپ سے کُچھ بات کرنی تھی" وُہ اُسے بازو سے پکڑ کر بیڈ پر بٹھاتے ہوئے بولا۔ 
اُس کے ایسے کہنے پر پاکیزہ کا دِل زوروں سے دھڑکا، پاکیزہ بچی تو تھی نہیں کے اُس نے نظروں کامفہوم نہیں سمجھ پاتی اُس کے بار بار گھر آنے کا مقصد یا پھر اپنے تئیں اُس کے جذبات کو نہیں سمجھ پاتی، 

"ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہاں کہو کیا کہنا ہے" پاکیزہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔

"مَیں آپ سے محبّت کرنے لگا ہوں، پاکیزہ بےانتہا محبّت" وُہ اپنے دونوں ہاتھوں میں اُس کے ہاتھوں کی ہتھیلی لیے محبّت پاش نظروں سے دیکھ کر کہنے لگا۔ 

"تُم اپنے حواسوں میں تو ہونا، نیاز" اُس نے فوراً سے اُس کا ہاتھ جھڑکتے ہوئے غصّے سے کہا۔

"آپ کو سجدے میں دیکھنے کے بعد میں اپنے حواسوں میں نہیں رہا" اُس نے پھر سے اُس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی جسے پاکیزہ نے پھر سے جھڑکا۔

"مُجھے!!! ہاتھ مت لگاؤ" اُس نے دبے لفظوں میں کہا۔

"مَیں نے آپ سے محبّت کی ہے پاکیزہ ہے کوئی گناہ نہیں" وُہ ذرا آگے آکر پھر سے اپنی بات دہرانے لگا۔

"کیسی محبّت ہاں!!! مَیں تُم سے تین سال بڑی ہُوں" 
اُس کے بار بار یہی بات دہرانے پر اُسے غصّہ آیا اور اُس نے نیاز پر ہاتھ اُٹھایا۔ نیاز بے یقینی اپنے گالوں پر ہاتھ رکھ کر اُسے دیکھنے لگا۔ اُسے پاکیزہ سے ایسے ہی کِسی ردِ عمل کی اُمّید تھی لیکِن پاکیزہ اتنا شدید ردِ عمل دکھائیگی یہ نہیں جانتا تھا۔ 

"آپ مُجھ سے تیرہ سال بھی بڑی ہوتی نہ تب بھی میں آپ سے ہی شادی کرتا،لیکِن آپ تو مُجھ سے صرف تین سال بڑی ہے، age is doesn't matter in love شادی تومَیں آپ سے ہی کرونگا" وُہ سختی سے کہتا دروازہ پٹختہ وہاں سے چلا گیا۔ پاکیزہ حیران ہو کر وہی بیٹھتی چلی گئی۔

نیاز، پاکیزہ کا تایا جلال الدین صاحب اور رومانہ بیگم کا چھوٹا بیٹا تھا بڑے بیٹے نواز کی شادی اُس کی خالہ کی بیٹی سے ہوئی تھی۔وُہ اپنے والدین کا چھوٹا ہونے کی وجہ سب سے لاڈلا تھا۔ جلال الدین صاحب اُس کی ہر خواہش پوری کرتے تھے۔ 

_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:

"ارے!!! بیٹا کہا جا رہے ہو، کھانا تو کھالو" اُسے جاتا دیکھ خلیل الرحمٰن صاحب نے کہا۔

" چچا جان مُجھے لیٹ ہو رہا ہے، پھر کبھی کھاؤنگا" وُہ اُن کے ماتھے پر بوسا دےکر چلاگیا۔

" یہ لڑکا بھی نہ ہمیشہ جلدی میں ہی رہتا ہے" خلیل صاحب بڑبڑانے لگے۔

:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_

آج نیاز کے بھتیجے کا عقیقہ تھا۔ اِس لیے سارے مہمان نیاز کے گھر جمع تھے،وُہ آج بہت خوش تھا، خلیل الرحمٰن صاحب کی فیملی بھی آنے والی تھی، اور آج اُس دُشمنِ جاں کا دیدار ہونے والا تھا۔ نیاز لون میں مردوں کے پاس کھڑا، اُن سے باتوں میں مصروف تھا تبھی وُہ اُسے گھر میں داخل ہوتی دکھائی دی۔وُہ سب سے سلام کرکے اپنی تائی جان کے پاس گئی۔ 

"اچّھا ہوا پاکیزہ بیٹا تُم آ گئی، اب اِن مہمانوں کے کھانے کا خیال تُم ہی رکھو، یہ گھٹنے کے درد سے مُجھ سے بھاگ دوڑ نہیں ہوتی، ربیعہ(نیاز کی بھابھی) وُہ کر نہیں سکتی اِس لِئے تمھیں کہہ رہی ہُوں" تائی نے صفائی دیتے ہوئے کہا۔ 

"تائی جان آپ فکرمند نہ ہو مَیں سب دیکھ لونگی" وُہ تائی جان کے گلے کے ہاتھ ڈالتے لاڈ سے بولی۔

"میری پیاری بچی" تائی نے سر پر ہاتھ رکھ کے دُعا دی۔

وُہ سارے مہمانوں کا دھیان رکھ رہی تھی، کہیں کِسی کو کوئی چیز چاہیئے تو نہیں ہر بات کا خیال رکھ رہی تھی، اور ایک وُہ تھا جس کی نظر اُس پر سے ہٹنے سے اِنکاری تھی۔ اُسے احساس ہوا کہ وُہ کِسی کی نظروں کے حصار میں ہے،اِدھر اُدھر دیکھنے پر اُسے کوئی نے دیکھا تو اپنے خیال کو وہم سمجھ کر جھٹک دیا۔
اُسے اپنی کزن نظر آئی تو وُہ اُس سے مِلنے جارہی تھی کی سامنے سے پلیٹ میں کھانا لاتے ہوئے ویٹر کو نہیں دیکھ سکی اور سارا کھانا اُس کےکپڑے پر گر نے سے اُس کے کپڑے خراب ہوگئے۔ ویٹر گھبرا گیا، وُہ ویٹر کو دلاسہ دیتے تائی کے کمرے میں صاف کرنے کے لیے داخل ہوئی۔ وُہ باتھروم میں ہی تھی کہ اُسے لگا کمرے میں کوئی آیا ہے۔ وُہ ڈریس صاف کرکے آئی تو وہ اُسے الماری میں کُچھ ڈھونڈتے ہوئے نظر آیا۔ نیاز کو یہاں دیکھ کر اُسے عجیب لگا وُہ ایسے ہی نیاز کو دیکھتے کھوئے ہوئے انداز میں باہر جارہی تھی کہ دروازے میں اُس کا پیر آگیا، اُس کے منہ سے چیخ نکلی، وُہ اپنی فائل وہی بیڈ پر پھینک کر اُس کی طرف بڑھا۔۔۔

"زیادہ زور کی تو نہیں لگی، آپ کو" وُہ اُسکا پیر دیکھنے لگا، پیر کی اُنگلی پر کُچھ خون کی بوند اُسے نظر آئی، وُہ اپنے رومال سے خون صاف کرنے لگا۔

"مَیں ٹھیک ہُوں" وُہ جلدی سے اُس کا ہاتھ اپنے پیر سے ہٹانے لگی۔

"لیکِن مَیں ٹھیک نہیں ہُوں پاکیزہ، میری محبّت ہر گزرتے دن کے ساتھ گہری ہوتی جارہی ہے، پلز پاکیزہ مُجھے اور نہ تڑپائیں، ورنہ مَیں مرجاؤنگا" پاکیزہ کو اپنے سامنے دیکھ کر وُہ اپنا ضبط کھو بیٹھا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت میں بہنے لگے، وُہ بے آواز رو رہا تھا اپنی پاکیزہ کے لئے۔

اُسے روتا دیکھ کر پاکیزہ حیران ہوئی، کیا وُہ اُس سے اتنی محبّت کرتا ہے کہ اُس کے سامنے رو دیا ہے۔ اُسے اپنی کالج کی ایک سہیلی کی بات یاد آئی "مرد صرف اپنی من پسند عورت کے سامنے روتے ہے، اور اُسی کے لئے روتے ہے" پاکیزہ کی دِل کی دھڑکن بےترتیب ہونے لگی۔ اُس کا دِل زور سے دھڑکنے لگا، جیسے ابھی نکل کر باہر آجاۓگا۔ 

"مت کرو مجھےاتنی محبّت نیاز، مُجھ سے محبّت تمہیں سیوائے دُکھ، تکلیف اور تڑپ کے کُچّھ نہیں دے گی" وُہ کرب سے بولی، ایسا نہیں تھا کی وُہ اُس سے محبّت کرنے لگی تھی، لیکِن کِسی سے چاہے جانے کے احساس سے وُہ سرشار ہوگئی تھی، اُس کی محبّت کا مان رکھنا چاہتی تھی، لیکِن وُہ بدنصیب اپنے محب کی محبّت کا مان نہ رکھ سکی۔

"آپ سے جُدائی اور تڑپ میں تو مَیں پل پل مرونگا اُس سے اچھا ہے آپ مُجھے خود اپنے ہاتھوں سے مار ڈالیں" وُہ اُس کا ہاتھ اپنے گلے پر رکھ کر دبانے لگا۔ پاکیزہ اُس کی اِس حرکت پر گھبرا کر اپنا ہاتھ جھٹکے سے چھڑایا۔

"مُجھے رُسواء ہونے سے ڈر لگتا ہے نیاز" وُہ وہی اُس کے سامنے بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"ایک بار میری دسترس میں آجائیں، آپ کے سارے ڈر ختم ہوجائینگے" وُہ بھی اُس کے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھتے ہوئے بولا۔

"آپ سمجھتے کیوں نہیں نیاز ہم ایک نہیں ہو سکتے" وُہ جھٹکے سے اُٹھی اور اُس کے بار بار اظہار پر وُہ تپ کے بولی۔

"کیوں! نہیں ہو سکتے ہم ایک؟" وُہ بیڈ پر سے تکیہ پھینکتے ہوئے غصّے سے بولا۔

" کیوں کہ مَیں آپ سے بڑی ہُوں" وُہ سنجیدگی سے بولی۔ لیکِن وُہ سُن کہا رہا تھا وُہ تو بس اُس کے آپ کہنے پراُسے دیکھنے لگا، کِتنی جلدی اُس نے تُم سے آپ کا سفر کیا تھا، اب اُسے یقین ہو گیا تھا کہ پاکیزہ بھی اُس سے محبّت کرنے لگی ہے۔ اب تو وُہ کُچھ بھی کرکے اُسے حاصل کرکے ہی رہے گا۔

"اتنی سی بات کو جواز بنا کر اِنکار مت کریں پاکیزہ ورنہ مَیں مرجاونگا" وُہ آنکھوں میں نمی لیے بولا۔

"نہیں کرنی مُجھے آپ سے شادی" وُہ منھ پر ڈوپٹہ رکھے اپنی سسکیوں کہ گلا گھونٹ کر وہاں سے جانے لگی تو اُس نے اُسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔

"آخر مسئلہ کیا ہے آپ کے ساتھ کیوں بار بار اِنکار کر رہی ہے آپ"پاکیزہ کے بار بار اِنکار سے تنگ آکر اُس نے پوچھا۔

"مسئلہ میری عُمر ہے" وُہ دانت پیس کر کہتی بازو سے اُس کا ہاتھ چھوڑاتی کمرے سے چلی گئی۔ وُہ سے نظروں سے اوجھل ہونے تک دیکھتے رہا۔

_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:

وُہ آج پہلی بار اپنے دوستوں کے ساتھ بائیک ریس لگانے مین ہائی وے پر پہنچا۔ پاکیزہ کے بار بار اِنکار سے اُس کا دِماغ ماؤف ہو چُکا تھا۔ اُس کے کان میں بار بار اُس کا اِنکار گونج رہا تھا۔ 

"تُو تیّار ہے نہ" وُہ وہی اپنی بائیک پر بیٹھا ہوا تھا ایک دوست عشر اُس کے پاس آیا اور اُسے ہیلمیٹ دینے لگا۔ اُس نے سر ہلا کر عشر سے ہیلمیٹ لےکر پہنا۔ چاروں دوست ایک لائن میں بائیک پر بیٹھے فائرگن کی آواز کا اِنتظار کررہے تھے۔ وُہ چاروں بائیک پر بیٹھے ایک دوسرے کو انگوٹھا دکھا کر تھمبس اپ کرنے لگے،فائرگن کی آواز سے اُن کی بائیک ریس شروع ہوئی۔ وُہ لوگ جِس ہائی وے پر ریس کے رہے تھے وہاں بہت خطرہ تھا۔ ذرا سی لاپرواہی سے جان بھی جاسکتی تھی۔ اپنی جان کی بنا پرواہ کیے وُہ ریس لگانے لگا۔ کبھی وُہ آگے نکلتا تو کبھی اُس کے دوست، وُہ لوگوں کی ریس آخری مرحلے پر تھی کہ اُس کا بیلنس بگڑا اور وہی بائیک سمیت گر گیا،سر سے ہیلمیٹ نکلی اور اُس کا سر وہی پتھر پر لگا، اُس کے سر سے خون کا فوارہ بہنے لگا اُسے بازو اور گھٹنے میں بھی چھوٹ لگی۔ اُس کا بہت بری طرح سے ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ اُس کے دوست وہی بائیک چھوڑ کر اُس کے پاس دوڑے جلدی سے اُسے اسپتال پہنچایا۔اُس کے دوستوں نے نیاز کے گھر پر اُس کے ایکسیڈنٹ کی اطلاع دی۔ تائی جان نے رو رو بُرا حال کر لیا تھا۔ جلال صاحب بھی صدمے کی کیفیت میں تھے۔ جوان لڑکے کو ایسی حالت میں کِسی سے دیکھا نہیں گیا۔ پاکیزہ اِن سب کا خود کو قصوروار ٹھہرا رہی تھی۔ اُسے تو جیسے چُپ لگ گئی تھی، وُہ اُس سے مِلنے اسپتال نہیں گئی گھر پر ره کر اُس کے لیے دُعا کرتی رہی۔

"ڈاکٹر اب کیسی ہے میرے بیٹے کی طبیعت، کیا ہم اُس سے مِل سکتے ہیں؟" ڈاکٹر کے آپریشن تھیٹر سے باہر آتے ہی جلال الدین صاحب سے پوچھا۔

"دیکھئے پیشنٹ کو آپ سب کے دُعا کی سخت ضرورت ہے، اگلے ۲۴ گھنٹے تک اُنہے ہوش آجانا چاہیئے، باقی ہم کُچھ نہیں کہہ سکتے ہیں" ڈاکٹر اُنہے پروفیشنل انداز کے کہتاچلا گیا۔ 

تائی جان وہی بیٹھ کر روتے روتے اپنے بیٹے کے لیے دُعا کرنے لگی۔

_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:

اُسے دھیرے دھیرے ہوش آنے لگا تھا۔ آنکھ کھول کر تائی جان کو دیکھ کر ہلکے سے مُسکرانے لگا۔ تائی جان نے اُس پر کُچھ پڑھ کر پھونک ماری، اور ڈاکٹر کو بُلانے لگی۔

"اب یہ ٹھیک ہے، ضرور کِسی کی دُعا اثر ہے ورنہ اتنے خطرناک ایکسیڈنٹ کے بعد اِن کا بچ پانا مُشکِل تھا۔ ویسے اِن کے گھٹنے میں چوٹ لگنے کی وجہ سے یہ کُچھ دن چل نہیں سکتے، چلنے سے اِن کے گھٹنے میں پھر سے درد ہو سکتا ہے،" ڈاکٹر اُس کی رپوٹس چیک کرتے ہوئے بولے۔

باری باری سب نیاز سے مِل کر جاچُکے تھے۔نیاز کی نظر دروازے پر تھی سب اُس سے مِل کر جا چُکے سوائے اُس جانِ دُشمن کے۔ تائی جان اور تایا جان اسپتال میں رُک گئے تھے۔۔۔

"ابّو۔۔۔ آپ سے کُچھ بات کرنی ہے" وُہ وہی بیڈ پر بیٹھے، نیوز پیپر پڑھتے تایا جان سے مخاطب ہوا۔ 

تایا جان سمجھ چُکے تھے کی وُہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ پاکیزہ کے لیے محبّت تو وہ پہلے ہی اُس کے آنکھوں میں دیکھ چکے تھے۔ وُہ بھی یہی چاہتے تھے کی پاکیزہ اُن کی بہو بنے۔ پاکیزہ کا نیاز سے بڑا ہونا اِس بات کو اُنہونے سنجیدگی سے نہیں لیا۔

"تُم جو کہنا چاہتے ہو، مَیں خوب سمجھتا ہُوں برخوردار،" جلال الدین صاحب نے مُسکرا کے کہا، تو نیاز شرما کر چہرہ دوسری طرف کرکے مُسکرانے لگا۔

_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:

دوپہر میں جب خلیل الرحمٰن صاحب اور نازیہ بیگم اسپتال میں نیاز سے مِلنے آئے توجلال الدین صاحب نے سب کو اپنے سامنے بیٹھا کر بات کی۔ خلیل الرحمٰن صاحب اور نازیہ بیگم کو تو کوئی اعتراض نہیں تھا، لیکِن پاکیزہ کی عُمر کو لےکر تائی جان منع کر رہی تھی۔ نیاز نے اپنی کنڈیشن کا فائدہ اُٹھایا جِس میں جلال الدین صاحب نے اُس کا بھرپور ساتھ دیا، بعد میں اپنے بیٹے کی خوشی کے لیے رومانہ بیگم بھی مان گئی تھی۔ پاکیزہ نے بھی اپنے ماں باپ کی خواہش کا احترام کرنے ہوئے اِس رشتے کے لیے حامی بھر دی تھی۔

_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:

شام کے سائے دھیرے دھیرے پھیل رہی تھے۔ موسم بہت سہانا تھا۔ وُہ پاکیزہ خلیل الرحمٰن سے پاکیزہ نیاز بن گئی تھی۔وُہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ جسے وہ بار بار منع کر رہی تھی آخر میں اُس ہی کی دسترس میں ہوگی۔ اُن کا نکاح اسپتال میں ہی ہوا تھا۔ نیاز کے خوشی کی کوئی انتہاء نہیں تھی۔ نکاح ہو گیا تھا لیکِن پاکیزہ اب تک اُس سے مِلنے نہیں گئی تھی۔ نازیہ بیگم نے اُسے زبردستی روم میں بھیجا۔
پاکیزہ روم میں داخل ہوئی تو دوسری جانب منہ کرکے لیٹا ہوا تھا۔ اُسے ایسے پٹیوں میں جکڑے دیکھ کر پاکیزہ کا دِل کٹ سا گیا۔ اُس نے کبھی ایسا نہیں چاہا تھا۔ پاکیزہ کو دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں چمک آئی۔ جیسے وُہ پاکیزہ کا ہی اِنتظار کر رہا تھا۔ وُہ آہستہ آہستہ اُس کے بیڈ کے قریب ٹیبل پر بیٹھ کر اُسے یک ٹک دیکھے جا رہی تھی۔ آنسوں کی لڑی اُس کے رُخسار کو بھگو رہی تھی، نیاز نے اُس کے آنسوں صاف کیے اور وہی آنسو والا ہاتھ اپنے بالوں میں پونچھ ليا۔یہی پاکیزہ کا ضبط جواب دے گیا اور وُہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

"یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے،مَیں ہی اِس کی ذمےدار ہُوں" آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔

"پاکیزہ، ایسا کُچھ نہیں ہے کوئی اِس ایکسیڈنٹ کا ذمےدار نہیں ہے" وُہ اپنے ڈرپ لگے ہوئے ہاتھوں کے پیالے میں پاکیزہ کا چہرہ لیتے ہوئے اُسے سمجھانے لگا۔اِس بار نیاز کے چھونے پر پاکیزہ نے اُسے نہیں جھڑکا وُہ اُس کا شوہر تھا، وُہ ہر حق اُس پر رکھتا تھا۔

"نیاز مَیں کِتنی بدنصیب ہُوں نہ، آپ کی محبّت کا مان بھی نہ رکھ سکی" وُہ اُس کے ہاتھ کے پیالے کو اپنی آنکھوں سے لگا کر پھر سے رو دی۔

"آپ نے میری محبّت کا مان رکھا ہے پاکیزہ، میری دسترس میں اپنی رضامندی سے آکر آپ نے میری محبّت کو مان رکھا ہے"اُس نے پاکیزہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، اُس کی آنکھ میں جذبات کا سمندر دیکھ کر وُہ نظریں جُھکا گئی، تو کیا سچ میں وُہ اپنی رضامندی سے اُس کی دسترس میں آئی تھی، اُس کی نظر نیچے تھی وُہ ہلکا سے مُسکرا نے لگی۔

وُہ اپنی شہادت کی اُنگلی اُس کی ٹوڈھی پر رکھ کے اُس کا چہرہ اُپر کیا۔ پاکیزہ کی نظریں اب بھی نیچے تھی۔

"آپ کو معلوم ہے پاکیزہ، مَیں آپ سے بے پناہ محبّت کرتا ہُوں، آپ کے بغیر میری زِندگی کا کوئی بھی لمحہ مَیں تصّور بھی نہیں کر سکتا" نیاز کا لہجہ جذبات سے چُور تھا۔ 

"لیکِن مَیں آپ سے بڑی ہُوں" پاکیزہ نظریں نیچے رکھ کر اتنی معصومیت سے بولی کہ نیاز اپنا قہقہہ کنٹرول کرنے لگا۔

"آپ مُجھ سے بڑی ہے تو، آپ مُجھے زیادہ پیار کر لینا" وُہ اُس کی آگے آئی لٹوں کو پیچھے کرتے ہوئے اپنی ہنسی دباتے ہوئے بولا۔ 

"نیاززززززز" پاکیزہ دانت پیستے ہوئے چیخی۔

نیاز اب دھیرے دھیرے ٹھیک ہی رہا تھا۔ اُسے اسپتال سے ڈسچارج مِل گیا تھا۔ لیکِن اب بھی وُہ کبھی کبھی چلتے ہوئے لڑکھڑا جاتا۔ پاکیزہ بھی رخصت ہوکر نیاز کے ساتھ آگئی تھی۔ پاکیزہ اُس کا دن رات بچّوں کی طرح خیال رکھتی، نیاز تو پاکیزہ کو پا کر بہت خوش تھا، اللّٰہ نے آخر اُس کی محبّت پر کن فرمایا دیا تھا، اور کیسے نہ فرماتا، وُہ پاکیزہ کے لیے دُعا ضرور کرتا، لیکِن اُس نے کبھی پاکیزہ کو پانے کا لالچ نہیں کیا، اور جو عبادت بنا کِسی لالچ کے کی جائے اللّٰہ اُس پر ضرور اپنی کن فرماتا ہے۔نیاز نے عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کا سفر بنا کِسی لالچ کے کیا تھا، بدلے میں اللّٰہ نے اُسے اُس کی محبّت دے دی۔

_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:_:

آج اُن کی پہلی شادی کی پہلی سالگرہ تھی۔ جِس کے لئے خاندان پھر میں دعوت کا اہتمام کیاگیا تھا۔
وُہ روم میں آیا تو پاکیزہ بیڈ پر بیٹھے غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں نم تھی۔

"پاکیزہ تُم ٹھیک تو ہو؟" اُس کے پوچھنے پر پاکیزہ کے رونے میں اور روانی آگئی۔ وُہ اُس کے سینے سے لگ کر رونے لگی۔

"وُہ آنٹی نے مُجھے آپ سے بڑی ہونے کا طعنہ دیا" بتا کر پھر سے رونے لگی۔ تقریب میں ایک جاننے والی عورت نے آج اُسے نیاز سے بڑا ہونے طعنہ دیا تھا۔

"پاکیزہ رونا تو بند کرو اپنا نہیں تو اُس ننّھی جان کا تو خیال کر لو جو آنے والا ہے" وُہ اُسے بہلانے لگا۔ وُہ پاکیزہ کا بہت خیال رکھتا، اِس حالت میں اور بھی رکھتا جب وُہ اُس کے بچّے کی ماں بننے جا رہی تھی۔ اِس حالت پاکیزہ اور بھی جذباتی ہو گئی تھی، چھوٹی چھوٹی بات پر رونے لگتی۔

"مُجھے آئسکریم چاہیئے" وُہ اُس کے سینے سے لگتی سوں سوں کرتے ہوئے بولی۔

"کوئی آئسکریم نہیں ملےگی ابھی نیچے کھائی تھی" اُس نے یاد دلایا۔

"مَیں بڑی ہُوں آپ سے آپ کو میری بات ماننی چاہیئے" نیاز آنکھیں بڑی کرکے اُسے دیکھنے لگا تھوڑی دیر پہلے وُہ بڑی ہونے طعنہ مِلنے پر رو رہی تھی، اور اب اپنی مطلب کی بات پر خود وہی بات دوہرا رہی تھی۔ نیاز نفی میں سر ہلانے لگا۔ پاکیزہ اپنی ہر مطلب کی بات اُس سے مَیں بڑی ہُوں کرکے نکلوا لیتی تھی۔ 

"اب بتائیے کون بڑا ہے؟" وُہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر آئینے کے سامنے لا کر خود اُس کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ پاکیزہ نے خود کو آئینے دیکھا، دُبلی پتلی، سانولی رنگت کی وُہ اپنے نیاز کے کندھے تک بھی نہیں آتی تھی۔ وُہ شرما کر نظریں جُھکا گئی۔

"میری جان اِدھر دیکھو میری آنکھوں میں" وُہ اُسے کندھے سے پکڑ کے اپنے سامنے کرتے ہوئے مخاطب ہوا۔ پاکیزہ اُس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔

"لوگو، کے بارے میں اتنا مت سوچا کرو، اگر آپ لوگوں کے بارے میں سوچوگی تو لوگ کیا سوچینگے" اُس کے اتنا سنجیدگی سے کہنے پر بھی پاکیزہ کو اُس کے اِس ٹک ٹوک والے ڈائیلاگ پر ہنسی آگئی۔ اُس کے ہنسنے پر وُہ بھی مُسکرانے لگا، اُس کو خوشیوں کی دائمی دُعا کرتے ہوئے وُہ اُسے اپنے سینے سے لگا چُکا تھا۔

ختم شد۔۔۔۔۔

یہ افسانہ آپ کو کیسا لگا ضرور بتائیگا۔ یہ ایک منفرد افسانہ تھا۔ ہمارے سماج میں اور جاننے والوں میں کُچھ ایسے لوگ ہے کوئی عورت اپنے شوہر سے عُمر میں بڑی ہے تو،کوئی آدمی نے اپنے سے کافی کم عُمر لڑکی سے شادی کی ہے۔ ہمارا سماج کِتنا دوغلہ اور منافق ہے نہ، اگر کوئی آدمی اپنے سے بہت کم عُمر لڑکی سے نکاح کرتا ہے تو ٹھیک ہے اُنہے دین یاد آنے لگتا ہے، لیکِن گھر لڑکی کا نکاح اُس سے چھوٹے لڑکے سے کی جائے تو باتیں بنائی جاتی ہے، تب اُنہے یہی دین نہیں یاد آتا جِس دین میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ نے اپنے سے کئی سال چھوٹے ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کیا تھا۔

دُعا میں ضرور یاد رکھیں۔۔۔

میرا ناول" یہی تو رازِ اُلفت ہے" اُسے بھی بھرپُور پی

   18
13 Comments

Arshik

12-Sep-2022 08:00 PM

کیا بات ہے آپ نے بہت زبردست لکھا ہے🌹🌹

Reply

D FAIZ KHAN

05-Mar-2022 12:15 AM

Bhut khoob

Reply

asma saba khwaj

04-Mar-2022 10:12 PM

Bhut khoob

Reply